جے این یو طالب علم عمر خالد کے ڈی یو میں ہونے والے پروگرام کو منسوخ کئے
جانے کے بعد پیدا تنازعہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس تنازعہ کی اہم
کڑی عمر خالد کی تقریر کا کینسل ہونا تھا۔ آپ کو بتا دیں کہ رامجس کالج میں
خالد کو 'دی وار ان آدیواسی ایریا' موضوع پر بولنا تھا۔ لیکن، اے بی وی
پی کی مخالفت کے چلتے رامجس کالج کو یہ پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ اس معاملے
پر اپنا موقف رکھنے خالد نے نیوز 18 سے خاص بات چیت کی۔
ہ حملہ ترقی پسند سوچ پر حملہ ہے۔ آج حکومت کی طرف سے جو پالیسیاں آ رہی
ہیں اس کو تب تک لاگو نہیں کیا جا سکتا، جب تک اسٹوڈنٹس کی آواز کو نہیں
دبایا جائے۔
جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے تب سے مزاحمت کی آواز کو دبایا جا رہا
ہے۔ اس کے لئے تمام طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔ میری تقریر کو کینسل
کرنا اسی کی ایک کڑی ہے۔
یہ لڑائی بائیں بازو بمقابلہ دائیں بازو نظریات
کی نہیں ہے۔ یہ مخالفت
اظہار رائے کی آزادی پر تھی۔ اے بی وی پی کی غنڈہ گردی کے خلاف جو مظاہرہ
ہو رہا ہے، اس میں ہر نظریے کے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔
اپنے غداری کے الزام پر انہوں نے کہا کہ دیکھئے یہ معاملہ ابھی عدالت میں
چل رہا ہے۔ یہ میرے اوپر الزام ہے۔ اس پر ابھی ٹرائل بھی شروع نہیں ہوا ہے۔
جھارکھنڈ کی جیلوں میں نہ جانے کتنے قبائلیوں کو پھنسایا گیا ہے۔
آر ایس ایس کہتی ہے کہ ہم ہی ملک ہیں۔ غداری کے نام پر مزاحمت کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔
نریندر مودی سے نجی دشمنی نہیں ہے۔ میری جنگ اس نظریے سے ہے جہاں سے وہ آئے ہیں۔
شاذیہ علمی کا پروگرام کینسل ہونے کی میں حمایت نہیں کرتا۔ شاذیہ جے این یو میں آئیں ان کا استقبال ہے۔
كشمير مسئلے پر انہوں نے کہا کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔ لیکن دوسری
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں تین دہائی سے تنازعہ ہو رہا ہے۔ ہمیں کشمیریوں سے
بات کرنی چاہئے۔